Thursday 19 January 2017

سرائیکی شعبہ دی اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور دی کامیابی


پاکستان میں لسانی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیاں

پاکستان میں لسانی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیاں

(Saeed Ahmed, )

پاکستان کے اندر لسانیات کا موضوع ہمیشہ لڑائی جھگڑے اور فساد کا سبب بنا ہے ملک کے اندر انھیں طبقات کو برتری حاصل رہی ہے جنکے ہاتھ میں اقتدار رہا ہے ہمیشہ برسراقتدار طبقے نے بازور قوت ملکی وسائل کو بے درردی سے لوٹا ملکی اسٹیبلشمنٹ نے بھی ان لوگوں کا ساتھ دیا اور اقتدار میں شریک کیا جو انکے ہم زبان ہیں جس سےپاکستان میں نفرتیں پیدا ہوئی ہیں آج بھی جن کے ہاتھ میں وسائل اور اقتدار ہے انھوں نے عوام کے ذہنوں کو اسطرحمنتشر الدماغ بنا دیاہے کہ پاکستان میں لسانیات کا موضوع نفرت کی علامت بن کر رہے گیا ہے لسان پر تحقیق ہونی چاہیے لیکن پاکستان میں الٹی گنگا بہے رہی ہے لسان پر تحقیق کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں ۔مقتدر حلقوں نے لسان کو خطرناک بنا کر پیش کیا لوگوں کے دلوں میں نفرتیں پیدا کیں ۔زہریلے پروپیگنڈے کے ذریعے مختلف زبانوں کو نشانہ بنا کر مخصوص زبانوں کو فائدہ پہنچایا گیا ۔ جس سے نفرتیں پیدا ہوئی لوگوں میں اشتعال پیدا ہوا یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اشیرباد سے ہوا ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنے من چاہے دانشوروں اور ادیبوں کے ذریعے تحقیق کروائی اور اپنی پسند کے خود ساختہ نتائج حاصل کرنے کے لے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا بےدریغاستعمال کیا تاکہ مطلوبہ ٹارگٹ کو حاصل کیا جا سکے ۔

پاکستان میں لسان کو اژدھا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اسکی ایک وجہ باظاہر بنگلادیش کی پاکستان سے علحیدگی کی صورت میں نظر آتی ہے حالانکہ بنگلادیش کی پاکستان سے علحیدگی معاشی محرومی کے سبب ہوئی ہے لیکن زیادہ زور لسان کو جواز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ دوسری وجہ برسراقتدار طبقات پاکستان کی جغرافیائی اور لسانی تفریق سے کبھی روشناس نہیں ہوئے اسکی وجہ وہ طبقہ ہے جو تقسیم کے وقت ہندستان سے ہجرت کر کے پاکستان آیا کیونکہ یہ طبقہ پاکستان کے جغرافیہ سے لاعلم تھا اسی طبقے کے پاس اقتدار رہا ہے طاقت رہی ہے اسی طبقے نے اپنی مرضی اور منشاء کے نتایج کو نصابی کتب کا حصہ بنایا کیونکہ انھیں طبقات کے پاس پاور تھی اور اج بھی انھیں کے پاس پرنٹ اور الیکٹرونک کی میڈیا کی طاقت ہے ۔کیونکہ انکے ہاتھ میں اقتدار ہے انھوں نے اپنی مرضی کی مردم شماری اور اپنی مرضی کے اعداد شمار کا ڈیٹا کتابوں میں لکھ رکھا ہے اور یہ برسراقتدار طبقہ عصبیت پسند اور جانبدار رہا ہے ۔ برسراقتدار طبقے نے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے لسانی ڈیٹا مرتب کر رکھا ہے، حکومتی چھتری کے نیچے مخصوص لسانوں کو فروغ دینے کیلئے دوسری زبانوں کی نفی کی گئی اور تحقیق کے دروازے بند کرنے کی کوششیں کیں ۔ہر گروہ نے دوسرے گروہ کے خلاف پروپیگنڈا کیا کہ فلاں لہجہ ہے اور فلاں زبان ہے اس کے ساتھ اپنی مرضی منشاء کے نتائج حاصل کرنے کیلئے ہر طرح کی حدیں پار کی گئی ہیں ۔ لسانی قواعد و ضوابط کو پامال کر کے اپنے اصول و قواعد کے مطابق لسانوں کی درجہ بندی کی اور تحقیقی مواد مرتب کیا گیا تاکہ اپنی عددی برتری ثابت ہو سکے ۔ لسانی اصولوں کے برخلاف جو اصول ، قواعد و ضوابط واضع کیئے گئے اس سے پاکستانی قوم کے اندر ہجان کی کیفیت پیدا ہوئی اور پاکستان کے اندر لسانوں کے حوالے سے عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا جس سے افراتفری پیدا ہوئی جو پاکستان کی سلامیت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ 

دنیا میں 6000 زبانیں بولی جاتی ہیں پاکستان میں لگ بھگ 79زبانیں بولی جاتی ہیں ان میں سرائیکی ، سندھی ، بروہی ، بلوچی پشتو کو لوگوں کی سپورٹ حاصل ہے۔ پاکستان کے اندر معیار ی اور غیر معیاری لسان کا کوئی تصور نہیں ہے جسکی لاٹھی اسکی بھینس والا معاملہ ہے۔ پاکستان میں معیاری لسان بولنے والے سیاست میں اگر غیر متحرک ہیں تو انکی معیاری لسان عصبیت کا شکار ہے کیونکہ سیاسی فورم پر انکی اواز اُٹھانے والا کوئی نہیں ہے اس کے برعکس پاکستان کے اندر غیر معیاری لسان بولنے والے سیاست میں متحرک ہیں اور اقتدار میں ہیں تو اسی غیر معیاری لسان کے اوپر حکومتی فنڈ کو جھونکا گیا اور جھونکا جا رہا ہے کیونکہ ان سے وابستہ اشرفیہ سیاست میں متحرک ہیں غیر معیاری لسان سے کوئی نتیجہ نکلے یا نہ نکلے لیکن حکومتی کارندے اس چیز سے بے خبر ہیں اور غیر معیاری لسانوں پر وسائل کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے معیاری لسان اور غیر معیاری لسان میں بنیادی فرق صوتی آوازوں کا ہے ۔ ان زبانوں میں صوتی آوازیں ہی بنیادی کردار ادا کرتی ہیں ۔لسانوں کا حروفی ڈھانچہ بھی صوتی آوازوں کی وجہ سے مرتب ہوتا ہے ۔جن زبانوں کی آپنی صوتی آوازیں ہیں وہ زبانیں اپنی منفرد صوتی آوازوں کی بدولت معیاری لسان کہلاتی ہیں اس کے برعکس جن زبانوں کی منفرد صوتی آوازیںنہیں ہیں وہ غیر معیاری لسان کہلائی جا سکتی ہے کیونکہ ان زبانوں کی صوتی آوازیں تمام زبانوں میںمشترکہ طور پر موجود ہیں یہ طفیلی لہجہ کہلاتی ہیں پنجابی بھی ایک ایسا ہی طفیلی لہجہ ہے۔

پنجابی لہجہ کی آوازیں فارسی ، عربی اور ہندی میں پہلے سے مستعمل ہیں اس وجہ سے پنجابی کو لکھنے کیلئے الگ سے کسی حروف کو ایجاد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔ مشرق کی صوتی آوازوں کا مطالعہ کریں تو بعض صوتی آوازیں مشترکہ ورثے کی حامل ہیں مشرق کی زبانوں میں مخصوص صوتی آوازوں کے علاوہ بہت ساری آوازیں مشترکہ ہیں اپ " الف سے لیکر ے "" تک صوتی حروفوں کا جائزہ لیں تو ان حروفوں سے نکلنے والی صوتی آوازیں ایسی ہیں جو بہت ساری زبانوں میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہیں ان مشترکہ صوتی آوازوں کے علاوہ مشرقی زبانوں میں ہر زبان کیمخصوص جدگانہ صوتی آوازیں ہیں جو اُس زبان کو دوسری لسان سے الگ کرتی ہیں اُسکو جداگانہ تشخص دیتی ہیں ۔ الف کی مخصوص صوتی آواز بھی ایک ایسی آواز ہے جو ہمیں مشرق کی تمام لسانوں میں نظر آتی ہےاس کے علاوہ اور بہت ساری آوازیں ہیں جو مشرقی خطے میں مشترکہ طور پر موجود ہیں ایسے حروفوں سے نکلنے والی صوتی آوازیں سب لسانوں کی مشترکہ صوتی آوازیں شمار ہوتی ہیں ۔یہ مشترکہ صوتی آوازیں گلوبل صوتی آوازیں کہلاتی ہیں ۔

اب ہم پنجابی لہجہ کا جائز ہ لیتے ہیں پنجابی پنجا صاحب سے نکلا ہے جو سکھوں کا مقدس مقام ہے سکھ بذات خود ثقافتی ، تہذیبی ، تمدنی ، جغرافیائی اور لسانی طور پر ہندی قوم کا حصہ ہیں سکھ عرصہ دراز سے ہندی قومیت سے الگ جداگانہ تشخص کیلئے جدوجہد کر تے رہے ہیں جس کیلئے ١٨٩٥ء میں برطانوی عدالت میں درخواست دائر کی گئی کہ پنجابی کو ہندی سے الگ زبان قرار دیا جائے۔ فارسی اور ہندی زبان میں پنجابی ، سرائیکی زبان میں پنجابی اور عربی زبان میں بنجابی کہلائے جانے والے اس لہجہ کے حروف اور صوتی آوازوں کے مطالعہ کے بعد برطانوی عدالت نے پنجابی کو ہندی کا ترش لہجہ قرار دیا کیونکہ پنجابی کی تمام صوتی آوازیں عربی ، فارسی اور ہندی میں پہلے موجود ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سر توڑ کوششوں کے باوجود پنجابی کو ہندی کی صوتی آوازوں سے الگ نہیں کیا جا سکا ۔ محروم آصف خان نے اس حوالے سے کام بھی بہت کیا لیکن کیونکہ پنجابی کی صوتی آوازیں نہیں ہیں یا آپ یوں سمجھ لیں جو بھی لفظ لکھا جاتا ہے اسکی صوت مذکورہ بالا زبانوں میں پہلے سے موجود ہے یہی وجہ ہے عربی ، فارسی اور ہندی کے حروف پنجابی لکھنے کیلئے کافی سمجھے جاتے ہیں اور وہی صوتی آوازیں اور حروف استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اس قسم کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ پنجابی کیلئے الگ سے قاعدہ بنایا جائے یا کوئی الگ سے رسم الخط ایجاد کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہو۔ جتنی بھی کوششیں ہوئی ہے وہ تمام کوششیں اس وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوئی کیونکہ لفظ کو لکھنے کیلئے صوتی آوازیں پہلے سے موجود تھی جس سے ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا اگے چل کر بھی کوئی نتیجہ برآمد ہونے والا نہیں ہے اسکا بنیادی سبب صوتی آوازیں ہیں جو ہم روز مرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں جس کے لیے ہم نے حروفوں کا سہارا لیا ہوا ہے تاکہ جو صوتی آوازیں ہم ادا کرتے ہیں انکو پڑھ اور لکھ سکیں۔ 

١٨٩٥ء میں مختلف ماہرین لسانیات کی موجودگی میں شواہد کی بنیاد پر جج اے ڈبلو سٹوگن نے پنجابی کو ہندی کا رف لہجہ قرار دیا ۔ ماہرین لسانیات کی رائے میں پنجابی معیاری زبان نہیں ہے بلکہ ہندی کا ترش لہجہ ہے جسکو زبان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ڈاکٹر طارق رحمان نے اپنی تحقیق میں برطانوی عدالت میں دائر پٹیشن کا ذکر کیا اس دائر پٹیشن کے نتیجہ کا ذکر ڈاکٹر طارق رحمان نے کچھ اسطرح کیا ہے ۔ 

Wilson’s proposals were condemned even more savagely than those of Cust. Most of his colleagues were still of the view that Punjabi was a dialect or patois, despite Leitner’s details about Punjabi literature and the indigenous tradition of education in the province (1882). Indeed, some Englishmen even felt that Punjabi should be allowed to become extinct, Judge A. W. Stogdon, the Divisional Judge of Jullundur, wrote in his letter of 3 August 1895 that : As for the encouragement of Punjabi. I am of the opinion that it is an uncouth dialect not fit to be a permanent language, and the sooner it is driven out by Urdu

لسان میں اصل کردار صوتی آوازوں کا ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ لسان یا لہجہ کہلاتی ہے انھیں صوتی آوازوں کی بنیاد پر لفظ تشکیل پاتے ہے اور یہی صوتی آوازیں ہیں جس کی بنیاد پر لسان کے حروف ایجاد کیئے جاتے ہیں ۔ جن کو ہم ضبط تحریر میں لاتے ہیں۔ مشرقی زبانوں میں سرائیکی ، عربی ، ہندی ، سندھی ، فارسی اور پشتو کی صوتی آوازوں کا مطالعہ کریں تو انکے کیلئے الگ سے حروف ایجاد ہو چکے ہیں اسکی بنیادی وجہ ان میں مشترکہ صوتی آوازوں کے ساتھ ساتھ انکی جداگانہ منفرد صوتی آوازیں ہیں جو ان زبانوں کو ایک دوسرے سے الگ شناخت دیتی ہیں لیکن دو صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی پنجابی اس کوشش میں ہیں کہ پنجابی کے لکھنے کا منفرد طریقہ ایجاد کیا جائے جو پنجابی کو ہندی سے الگ کر دے یہ کوشش لاحاصل ہے ۔اسکا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا ۔ اسکی بنیادی وجہ یہی ہے پنجابی کے اندر صوتی آوازیں جداگانہ نہیں ہیں جسکی بنیاد پر اسکی صوتی آوازوں سے مختلف حروف ایجاد ہو سکیں بلکہ پنجابی وہ صوتی آوازیں نکالتے ہیں جو ہندی میں موجود ہیں پھر پنجابی کے لے الگ سے رسم الخط کیسے ایجاد ہو گا ؟ کچھ ادیب گورمکھی کا رسم الخط پیش کر کے دعویٰ کرتے ہیں کہ ان میں الگ سے حروف ہیں جو عربی ، فارسی اور ہندی میں موجود نہیں ہیں جناب کبھی اپکو توفیق ملے تو اپ گورمکھی کے صوتی قاعدہ کو سنیں اس میں تمام آوازیں وہی ہیں جو ہندی میں پہلے سے موجود ہیں پھر الگ سے حرف بنا لینے سے پنجابی کیسے ہندی صوتی آوازوں سے الگ ہو سکتی ہے ؟ صوتی آوازیں ہی لسان کی جداگانہ شناخت کی ضامن ہیں اگر صوتی آوازیں جداگانہ نہیں ہیں تو کیسے حروف ڈھلیں گئے ؟ کیسے حرف ایجاد ہونگے ؟ جن لسانوں کے حروف ایجاد ہو چکے ہیں اپ انھیں حروفوں کو استعمال کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں پنجابی لہجہ کو لکھنے کیلئے ہم مذکورہ زبانوں کی صوتی آوازیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں وجہ وہی ہے کہ پنجابی کے اندر جداگانہ شناخت کی حامل صوتی آوازیں نہیں ہیں۔ بنیادی سبب وہی ہے پنجابی ایک طفیلی لہجہ ہےیہ ایک مردہ لہجہ ہے جس میں لفظ بننے کا عمل رک چکا ہے ۔

حضرت سچل سر مستؒ

حضرت سچل سر مستؒ
لکھت … الطاف خان ڈٖاہر
حضرت سچل سر مستؒ سرائیکی زبان وادب دے مہاندرے صوفی بزرگ ہِن۔ آپ دی پیدائش ۱۱۵۲ھ بمطابق 1739ء وچ ضلع خیر پور دے دیہات درازا شریف حضرت میاں صلاح الدینؒ دے گھر تھئی۔ آپ دا ناں عبدالوہاب رکھیا گٖیا، بچپنْ توں نیکی تے سچائی پاروں آپ کوں سچلؒ اتے سچو سڈٖیا ویندا ہا، آپ کوں سچل تے سچو ناں ایڈٖا پسند آیا جو آپ اینکوں اپنْا تخلص بنْا گٖھدا۔ حضرت سچل سر مستؒ بٖہوں لمبی حیاتی گزاری، آپؒ سرائیکی زبان دے علاوہ سندھی  زبان دے وی شاعر ہن۔ آپ دی وفات 1827 ء وچ تھئی۔ آپؒ کوں اپنْے عہد دا منصور ثانی وی آکھیا ویندے۔ آپؒ دے ڈٖاڈٖا سئیں اپنْے عہد دے صوفی بزرگ ہن ۔ انہاں دا ناں میاں صاحب ڈٖنہ ہا۔ حضرت سچل سر مستؒ دے والد صاحب حضرت میاں ڈٖنہ صاحب دے وڈٖے پتر ہن۔ آپؒ اپنْے ماء پیؤ دے ہیکڑو پتر ہن۔ آپؒ دا سلسلہ حضرت عمر فاروقؒ نال ونجٖ ملدے۔ ایں سانگے آپؒ کوں فاروقی وی آکھیا ویندے۔ آپؒ دی روحانی تربیت دی گھٹی آپؒ دے ڈٖاڈٖا سئیںؒ لائی۔ ایندے بعد آپ کوں روحانیت نال مالا مال آپؒ دے چاچا سئیں مرشد اتے سورا سئیں حضرت عبدالحق فاروقی کیتا۔ آپؒ دی خدمت داری کیتے ہک حبشی تریمت وی ہئی۔ جیرھی نیک سیرت تے خوش مزاج ہئی۔ سچل سئیں پیار نال انہاں کوں ’’ کالی دائی اماں ‘‘ آہدے ہن۔ ہک ڈٖینھ دائی اماں سچل سئیں کوں آکھیا جو کھاونْ توں پہلے بِسم اللہ پڑھی کرو۔ سچل سئیں آکھیا ! اماں ایندے وچ لفظ ’’ اللہ ‘‘ تاں آخر وچ آندے۔ میکوں کوئی ایجھا عمل ڈٖسو جیندے وچ لفظ ’’اللہ ‘‘ پہلے آوے۔ اے سنْ کہ دائی اماں حیران تھی۔ دراصل تصوف تے روحانیت دا اثرآپ تے  شروع توں ہا۔ سندھی صوفی بزرگ سئیں حضرت شاہ لطیف بھٹائی سئیں حضرت سچل سرمستؒ دے ڈٖاڈٖا سئیں حضرت میاں ڈٖنہ صاحب دے ہم عمر ہن۔ ہک ڈٖینھ حضرت شاہ لطیفؒ فرمایا جو ’’ میاں ڈٖنہ صاحب !‘‘ جیڑھی آپاں معرفت تے تصوف دی دیگٖ چڑھائی اے ایندا ڈھک اے بٖال یعنی حضرت سچل سرمست ؒ لہیسی۔ 
آپؒ دی طبیعت خوش اخلاق ہئی۔ ہر ویلے خاموش راہندے ہن۔ صرف ضرورت ویلھے بٖولیندے ہن اکثر کلھے جنگل آلے پاس ٹر ونٖجن ہا ۔ آپؒ اپنْے مرشد حضرت عبدالحق دے بارے فرمیندن جو   ؎
ہادی ہے میڈٖا عبدالحق سائیں 
صوفی صاف جو شہنشاہ میاں 
سبھو علم جیندے توں معلوم تھیاں
اِسرار مزیوئی آگاہ میاں
آپ کوں ہفت زبان شاعر وی آکھیا ویندے۔ آپ دا کلام ساکوں زیادہ تر سرائیکی ، فارسی اتے سندھی وچ ملدے۔ آپ کوں سرتاج الشعراء ، شہنشاہ عشق اتے منصور ثانی وی آکھیا ویندے۔ آپؒ دا کلام 9 لکھ 36 ہزار 6 سو 36 اشعار تے مشتمل ہے۔ آپؒ دیاں فارسی تصانیف وچوں دیوان آشکار، مثنوی عشق نامہ، مثنوی درد نامہ، مثنوی گداز نامہ، مثنوی رہبر نامہ، مثنوی وحدت نامہ، مثنوی تار نامہ، مثنوی وصلت نامہ، بحرِ طویل شامل ہِن۔ اردو کلام وچ 50 غزلاں ہن، جیکوں صادق رانیپوری سرائیکی کلام دے آخر وچ ڈٖتیاں ہِن۔ 
سندھی زبان وچ کلام ’’ سچل جو سندھی کلام ‘‘ دا شعری مجموعہ ملدے۔ پر سب توں اہم شاعری مجموعہ ’’ سچل جو سرائیکی کلام ‘‘ جیکوں صادق رانی پوری مرتب کیتے ۔ ایکوں مستند ، معیاری اتے جامع تصور کیتا ویندے۔ پہلے 1959ء وچ ول 1982ء وچ شائع تھیا۔ سرائیکی کلام کافیاں اتے ڈٖوہڑے تے مشتمل اے۔ آپؒ دے کلام وچ ساکوں ، عشق  حقیقی، محبت، پیار، امن، خلوص، رواداری، مساوات، صبر و شکر، تحمل ، برداشت کائنات پسندی اتے حسن و عشق دے درس ملدے ہن۔ آپؒ دے کلام وچ ساکوں ہیر رانجھا دی مجازی جھلک وچ عشق حقیقی دی رمز ڈٖسدی اے۔ آپ کوں اپنْی ماء بٖولی اتے اپنْے وطن نال ڈھیر محبت ہئی۔ آپؒ دی شاعری وچ اساکوں لطیف پہلو اتے دھرتی دے مناظر واضح ڈٖسدن۔ 
لوکاں تک عشق حقیقی دی معرفت اتے درس کیتے انہاں اپنْی ماء بٖولی سرائیکی وچ زیادہ کم کیتا۔ جیڑھا تسلسل ساکوں حضرت سچلؒ دے کلام وچ ملدے ایہو تسلسل ساکوں حضرت خواجہ غلام فریدؒ دے کلام وچ وی ملدے۔ کیوں جو شاعری نال صوفی بزرگ اپنْے افکار و خیالات اتے روحانی واردات کوں نشابر کریندن۔ آپ دا سرائیکی کلام وچ تخلص سچل ، سچو ہے۔ سرائیکی کلام کافیاں دا نمونہ 
سرائیکی کلام 1:   ؎
ڈٖیکھنْ نال سجٖنْ دے، غیر نہ ہرگرز راہندا
دلبر بٖاجھوں نال کہیں دے ، ٹھاہ نہ ساڈٖا ٹھہندا
بٖنہاں نال جو یار الاوے، ساہ نہ ساڈٖا سہندا
ٹُر ٹر وینداں غیراں کولوں، نال ساڈٖے نئیں بٖہندا
سچلؔ جٖالے روز غماں وچ ، سوہنْاں سُدھ نہ لہندا۔
سرائیکی کلام 2  ؎
رانجھنْ کوں پرچائیں
کھیڑا رٹھا تے گھولیا وو
میں رانجھنْ دی رانجھنْ میڈٖا
کھیڑا کون بلائیں؟
لوکاں لیکھے چاک منجھیں دا
رانجھنْ سِر دا سائیں
ساہ سچلؔ دا سوہنْا کیتے
منگدے بٖہوں دعائیں
سرائیکی کلام نمبر 3  ؎
رانجھو کھیڑا ڈٖوہیں ہاں
ہیر رہی وچ کھتے کھتے
جھنگ سیال تے تخت ہزارہ
ڈٖوہیں ڈٖٹھم اِتھے اِتھے
گم ہوئی بھی ہیر اِتھاہیں
موج وڑھی آہی ، جتھے جتھے
سچو صاحب ہکو آ ہا
وال نہ کائی وِتھے وِتھے
انہاں دے معرفت بھرے کلام وچ ہیر بندہ ہے اتے رانجھا رب دی ذات ہے۔ آپ دے فارسی کلام 
وچ تخلص ’’آشکار‘‘ اتے خدائی ہے۔ آپ دا کلام آونْ والی نسلِ انسانیت کیتے ہک رہبر تے راہنما ہے۔ آپؒ دی شاعری اُتے عمل کر تے اساں دُنیا وچ پیار ، محبت اتے امن قائم کر سگٖدے ہیں۔ ساکوں انہاں دا کلام دہشت گردی اتے نفرت توں دور راہونْ دا درس ڈٖیندے۔ آپؒ ہک لمبی عمر پاتی ۔ آپ دی کوئی اولاد نہ ہئی۔ آپؒ دا مزار سندھ دے ضلع خیر پور تحصیل گمبٹ دے ہک علاقے درازا شریف وچ ہے۔ جتھاں احٖ وی لکھاں دی تعداد وچ مریدین اتے عقیدت مند آساں اُمیداں گھن کے آندن اتے ول جھولیاں بھر کے ویندن۔ احٖ دا انسان صوفی بزرگاں دی تعلیمات حاصل کر تے خوشی اتے آسان حیاتی گزار سگٖدے۔ ایہ ساڈٖے کیتے چشمہ ہدایت ہِن۔ 
سوئی کم کریجے
اللہ آپ بنڑیجے
مار نارا انا الحق دا
سولی سِر چڑھیجے
٭٭٭

سرائیکی لوک قصے دا فلسفہ

لوک قصے دا فلسفہ

لکھت : الطاف خان ڈٖاہر
سرائیکی وسوں لوک قصے دے ادب نال بٖہوں زرخیز ہے۔ ساڈٖا لوک ورثہ ساڈٖی ثقافتی، جغرافیائی ، سیاسی، سماجی اتے نفسیاتی تاریخ ہوندے۔ لوک قصے کہانْیاں تے لوک گیتاں دے ذریعے اساں اپنْی خواہشاں ، امیداں اتے احساسات و جذبات دا ظہار کریندے ہیں۔ لوک قصے کہانْیاں ساکوں مختلف قسم دے موضوعات بارے معلومات تے سبق ڈٖیندن جو اساں کہیں ہک وڈٖی مشکل توں بچ سگٖدے ہیں تے نال ہی کیویں بٖئے سہارے دے منتظر رہندے ہیں۔ خیر تے شر دے آپس وچ ٹکرائو نال کیویں ہر ہمیش نیکی تے خیر جیت ویندی ہے۔ ساکوں اپنْے ورثے دی گٖول کرنْی چاہیدی ہے۔ افسوس جو ساڈٖا لوک ورثہ اونویں نی سنبھالیا گٖیا جیویں اوندا حق بنْدا ہا۔ ایندی طرف اونویں اہمیت نی ڈٖتی گٖئی جیویں سائنس دی طرف ڈٖتی گٖئی ہے۔
حالانکہ احٖ دا معاشرتی سماج بٖہوں مسائل دا شکار ہے۔ جدید ٹیکنالوجی دے باوجود لوکاں کوں روحانی خوشی تے پیار نی مِلدا پیا۔ ہر طرف لاغرضی ، لالچ تے حسد نظردے، انسان اخلاقیات کوں ختم کیتی ویندے ۔ حالانکہ انسان دی سبھ توں پہلی فضیلت اخلاقی اقدار ہن۔ انسان اپنْا ماضی گم کر چھوڑیے۔ ماضی دے سنہری سوجھلے دیاں کرناں کوں ختم کر ڈٖتے۔ اگر اے ڈٖیوا بٖلدا راہندا تاں احٖ ساڈٖا ایویں حال نہ ہوندا۔ انسانی حیاتی احٖ دہشت گردی تے بد امنی دا شکار وی ایںپاروں ہے۔ اساں اشرف المخلوقات دیاں اخلاقی قدراں دی پامالی شروع کر ڈٖتی ہے جبکہ انسان کولوں اگر ہر شئے موجود ہے تاں صرف اخلاقی دانش تے اقدار کینھی تاں اوندی زندگی بغیر پُھل دے خوشبو وانگوں ہے۔ فطرت نال خوبصورتی ساکوں ساڈٖا لوک ورثہ ڈٖسیندے۔ اجٖوکے دور دے سارے مسائل دا حل اساں اپنْے بزرگاں دیاں لوک دانش نال گٖنڈھیاں گٖالھیں وچوں کڈھ سگٖدے ہیں۔ احٖ حیاتی دا جبر ساکوں ہک عجیب خوف وچ مبتلا کر چھوڑیے ۔ ایں خوف تے ڈٖر وچوں نکلنْ دا واحد حل ایہو ہے جو اساں اپنْے وڈٖے عظیم لوکاں دا ورثہ سامنْے گھن آئوں۔ ول ایکوں اجٖوکے دور دے تناظر وچ پڑھوں تے خطے دی اصل روح کوں شناخت ڈٖیونْ دی کوشش کروں۔ لوک ادب دا پیغام خلوص، بھلائی تے محبت ہوندے۔ ایندا مقصد شر دے مقابلے وچ خیر و بھلائی دا طالب تھیونْ ہوندے۔ ایندی تریجھی اکھ وی ہوندی ہے، جیندی مدد نال لوک دانش تے دناوت نِتر تے سامنْے آندی ہے احٖ ساڈٖی تریجھی اکھ لوک ادب دی دید ختم تھیندی ویندی ہے۔ ول اگر ساڈٖی تریجھی اکھ مکمل طور تے ضائع تھی گٖی تاں ول اساں اپنْا قیمتی حکمت نال بھریا خزانہ نہ ڈٖیکھ سگٖسوں۔ احٖ اساکوں انہاں چیزاں دی سانبھ سنبھال کرنْ دی اشد لوڑ اے۔ ایہ شئے سینہ بہ سینہ ہک نسل توں بٖئی نسل تئیں زبانی و زمانی منتقل تھیندی رہ ویندی ہے ۔ ول اگر نور ختم تھی گٖیا تاں ول اساں اندھیاں وانگوں ٹرسوں اتے ساکوں سہارے دی لوڑھ پوسی۔ دنیاں وچ کامیاب قوماں اپنْے فوک لور اتے لوک ادب دی چھاں وچ رہ گٖن۔ ایں سانگوں انہاں کوں مٹ ونجٖنْ دی دھپ کجھ نی آکھیا۔ احٖ دے ایں افرا تفری دے دور وچ اساڈٖے کولوں میڈیا اتے حیاتی دی تیز رفتار یلغار ہر شئے چھک گھدے۔ ایں کوں نویں سروں محفوظ کرنْ دی آہر کرنْی پوسی۔
لوک قصہ کہانْی دی مدد نال اساں آونْ آلے مشکل ترین حالات دا سامنْا کر سگٖدے ہیں۔ اپنْی موجودہ نالائقیاں کوں ماضی دے شاندار قصیاں وچوں بھلیا ہویا سبق تے نصیحت یاد کر تے اگٖوں دی حیاتی وچ کامیابی حاصل کر سگٖدے ہیں لوک قصے دا فلسفہ ایہو ہے جو حیاتی دے مشکل پندھ دیاں تکلیفاں تے ڈٖکھ کوں عقل مندی تے نصیحت دے عمل نال حل کروں۔ قصہ گٖوئی دا فن اتنا ہی پرانْا ہے جتنا خود انسان۔ اساں قصیاں کہانْیاں بارے ایں گٖال دا اندازہ نی لا سگٖدے جو اے کتنے پرانْے تے قدیم ہن ۔ لیکن اے گٖالھ دا حتمی ہے جو قصے کہانْیاں دا سفر صدیوں توں جاری و ساری ہے۔ قصے کہانْیاں کہیں ہک انسان دی مشترکہ تخلیق نی ہوندے بلکہ اے کئی ادوار تے مداحل وچوں لنگھ کے مکمل تھیندن۔ قصے کہانْیاں دی زبان تے کردار مختلف زمانیاں وچ مختلف ہوسی ، پر دنیا دے سارے دانشوراں دا ایں گٖالھ تے وی اتفاق ہے جو لوک قصے دا فلسفہ پوری دنیاں وچ ہکو ہے۔ پوری دنیا دے لوک قصے کہانْیاں ہکو سویاں ہن ، پر اے اپنْے علاقے، تہذیب وتمدن ، جغرافیہ، ثقافت تے زبان پاروں مختلف نظر آندیاں ہن۔ اے لوک قصے ہک کن تو بٖئے کن تئیں منتقل تھیندے رہییے ہن۔ ایں سانگے ساکوں لوک قصے کہانْیاں دا لکھاری ہک نی اتے شاید دنیا دا کوئی ادب لوک قصے کہانْیاں دے تخلیق کار دا پتہ لا سگٖدے؟ ایندی تحقیق دی لوڑ ہے ۔
لوک قصے کہانْیاں بارے اے قیاس وی ہے جو اے محض خیالی ، بے مقصد اتے مافوق الفطرت عناصر تے مشتمل ہوندن۔ جنہاں دا حقیقی حیاتی نال کوئی تعلق نی ہوندا۔ مگر اے آکھنْ آلے بھل ویندن جو اے کہانْیاں صرف اوں ویلھے آکھیاں گٖیاں ہوسن جیڑھے ویلھے انسانی حیاتی فکری اتے ذہنی طور تے بٖلویں مراحل توں گزردی پئی ہوسی۔ پر ایندے وچوں وی مقصد تے فلسفہ وی ایہو ہوندا ہا جو انسان اپنْے ڈٖر تے خوف کیویں ختم کرے تے ول آپنْی حیاتی کوں امن و سکون تے آرام نال گذارے۔
ول کہیں حد تئیں اے گٖالھ وی ٹھیک ہوندی ہے جو قصے کہانْیاں وچوں تاریخ تے سماجیات دے او عوامل مکمل طور تے نی ملدے جیڑھے ساکوں چاہیدے ہوندن یا جنہاں دی اساں توقع تے امید رکھیندے ہیں۔ لیکن ساکوں اے پہلو وی ذہین وچ رکھنْا پوسی جو اے دور انسان دے کئی قسم دے توہمات تے وسوسے دا دور ہا۔ بٖہوں ساریاں حقیقتاں دیاںبندہ اپنْے طور تے تاویلاں تعبیراں کڈھیندا ہا۔  ایں سانگے قصے کہانْیاں وچ مکمل سماجی، ثقافتی تے تاریخی رویئے تلاش کرنْ آسان کم نہ ہا۔ لیکن ول وی ساکوں انہاں قصیاں کہانْیاں وچ رسم و رواج ، تہذیب و تمدن اتے علاقے دی ثقافتی شناخت دے نال جغرافیائی خدو خال ضرور نظر آندے ہن۔ ایں سانگے قصے کہانْیاں دے کرداراوں خطے دی مناسبت نال ہوندے ہن جتھاں انہاں قصیاں کہانْیاں دا تعلق ہوندا ہا۔
لوک قصے کہانْیاں وچ نہ صرف غیر حقیقی تے خیالی دنیا ہوندی ہے بلکہ اے قصے کہانْیاں ساکوں منڈھ قدیم لوکاں دی سوچ، ورت، ورتاوا، انہاں دے ادبی رجحانات انہاں دے خیالات ، فکر، زبان، ثقافت، تہذیب و تمدن و رواج ، رہن سہن، توہمات و خواہشات اتے خوف بارے وی ڈٖس ڈٖیندن۔ لوک ادب بارے اے تاں ہر ہک کوں پتہ ہے جو اے ہک سینہ توں بٖے سینے وچ سفر کریندے تے ول ہک نسل توں بٖئی نسل تئیں پجٖ ویندے۔ اے عمل ہزاراں سالاں توں جاری ہے۔ وقت دے نال نال تبدیلیاں آندیاں راہندن قوماں دے آپس دے میل جول نال ہک قوم دی روایات تے رسمات ڈٖوجھی قوم وچ منتقل تھیندیاں راہندن اے ہک فطرتی عمل ہے۔ ایند اارتقاء تھیندا راہندے۔ اے آکھو جو لوک ادب سارے انساناں دی مشترکہ میراث تے ادب ہے ایندے وچ ہک قوم دے رسم و رواج دا بٖئی قوم وچ منتقل تھیونْ کوئی حیرانی نہ گٖالھ نی۔ اے قدرتی عمل ہے۔ لوک قصے کہانْیاں دنیا دے مختلف خطیاں نال تعلق رکھنْ دے باوجود اپنائیت دا اظہار کریندن۔ انہاں قصے کہانْیاں دے کردار ، موضوعات ، فکر تے سوچ منظر نگاری ، کرداراں دی نفسیات ، خیر تے شر دا لڑنْ ، غیبی امداد اتے سماجی و معاشرتی صورت حال ہکو سانویں ہوندی ہے۔ البتہ انہاں لوک قصے داستاناں وچ جیڑھے پرندے تے زناور آندن ، انہاں وچ علاقی سطح تے خیر تے تے شر دی فطرتی عادتاں اپنْے اپنْے  خطیاں دے اعتبار نال ہک بٖے توں مختلف ہوندن۔ لوک ادب ساکوں مختلف علاقیاں دے لوک قصے تے کہانْیاں دے موضوعات تے رجحانات کوں سمجھنْ وچ مدد ضرور ڈٖیندے۔ سبھ توں اہم گٖالھ جو لوک قصے دا فلسفہ ہکو ہے او ہے انسانیت دی فلاح و بقائ۔ اے ساکوں نصیحت تے دانش دا بیش بہا قیمتی خزانہ میسر کریندے جیندی مدد نال اساں اپنْی حیاتی دیاں چیڑھیاں گٖنڈھیاں کوں سلجھاونْ تے آسان کرنْ وچ بھرپور کردار کریندے انسانی حیاتی کوں نا امیدی تے شکست توں دور رکھیندے، ایندے اندر ہک نواں جذبہ تے جوش پیدا کریندے۔